مدارس اسلامیہ اور علماء دین کی ذمہ داری

از: میرزاہد مکھیالوی

جامعہ فلاح دارین الاسلامیہ بلاسپور، مظفرنگر

 

مدارس اسلامیہ کی اہمیت وافادیت اور تاریخی حیثیت کسی بھی صاحب علم ذی شعور انسان پر مخفی نہیں، علمی و دینی خدمات کے ساتھ ملک کی ترقی و سلامتی کے لئے بھی مدارس کا نمایاں کردار رہا ہے، وطن عزیز کی خاطر قربانی دینے کیلئے مدارس اور علماء کا قائدانہ کردار ملک کی جدوجہد آزادی سے لے کر آج تک تاریخ کا ایک قابل فخر اور زریں حصہ ہے۔ مدارس اسلامیہ امت مسلمہ کی وہ متاع عزیز ہیں جن کے ساتھ اس کا ملّی تشخص اور دین و مذہب کی بقاء کا سلسلہ مربوط ہے، یہ دینی ادارے اسلامی تہذیب و ثقافت اوراخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں، علماء دین جو ملت کے رہنما ہیں انھوں نے اوّل دن سے ہی اپنے فرض منصبی کو بخوبی پورا کیا اور دینی مراکز و مدارس کی بنیادیں ڈالنے، ان کی آبیاری کرنے اور پروان چڑھانے میں بڑی مشقتیں برداشت کیں، مختلف قسم کی مشکلات سے انہیں دوچار ہوناپڑا خود اپنے ہی لوگوں کی جانب سے موانع اورمسائل پیش آئے لیکن ہمارے اکابر و اسلاف نے ہمت نہیں ہاری بلکہ متواتر اپنی جدوجہد کو جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے آسانیوں اور فلاح و کامیابی کے دروازے کھول دئے۔

            راقم الحروف کے سامنے ماضی قریب کی تازہ مثال استاذ العلماء حضرت مفتی نصیر احمد صاحب قدس سرہ کی ہے، حضرت موصوف ۱۹۹۲/ تک مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد مظفرنگر یوپی کے صدر مفتی رہے۔ ادارہ کے بانی و روح رواں حضرت مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادی کی سرپرستی میں چالیس سال تک فقہ وفتاوٰی کی مثالی خدمات انجام دیں، تدریسی مصروفیتوں اور دارالافتاء کے باوقار و حساس شعبہ کی ذمہ داری کے ساتھ انھوں نے مظفرنگر، باغپت، میرٹھ وغیرہ کے دیہی علاقوں میں دو درجن سے زائد مدرسے قائم کئے، اس کے لئے انہیں قریہ قریہ پیدل بھی سفر کرنے پڑے، لوگوں کی تلخ کلامی اور ناشائستہ حرکتوں سے بھی سابقہ پڑا، طرح طرح سے مخالفتیں کی گئیں، لیکن وہ مرد مجاہد ہر موقعہ پر فولادی پیکر بن گئے اور عزم و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

            یقینا حضرت مفتی صاحب ملت اسلامیہ کے بڑے محسن تھے کہ انھوں نے ناخواندہ قوم کو جہالت و بددینی کی تاریکیوں سے نکالنے اور دینی تعلیمی رجحان پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا، باری تعالیٰ انہیں اس اساسی خدمت کے عوض اپنی شایان شان اجر عطاء فرمائے۔ آمین۔

نومولود مدرسوں کا سیل رواں

            یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ اس وقت گاؤں بستیوں اور شہروں میں نئے نئے مدرسے بکثرت قائم کئے جارہے ہیں، ہر بستی اور شہر میں دینی ضرورت کے تحت مدرسہ کا قیام بلاشبہ ایک بنیادی اور خوش آئند اقدام ہے، لیکن ایسے نومولود مدرسوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کا مقصد خدمت دین کے بجائے فخر و نمود اور مقابلہ آرائی ہے، اسی لئے بعض چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات میں کئی کئی مدرسے چل رہے ہیں اور برادریوں میں منقسم ہیں کہ یہ مدرسہ فلاں برادری کا، اس مدرسہ کے کارکنان فلاں برادری والے ہیں، وغیرہ۔

            یقینا یہ افسوس کا مقام ہے کہ مدارس اسلامیہ جو درحقیقت اسلامی قلعے اور پوری ملت کے لئے سرمایہٴ افتخار ہیں جن کا مقصد اصلی خدمت دین اور اشاعت دین ہے، جن سے ہمیشہ اتحاد ویکجہتی، اخوت و ہمدردی اور انسانیت کا پیغام دیا جاتا رہا آج وہ دینی ادارے گروہ بندی میں بٹ کر رہ گئے، جب ہم لوگوں کا جو دین کے خادم اور پیشوا سمجھے جاتے ہیں یہ حال ہوگا تو عوام الناس کہاں تک پہنچیں گے ظاہر ہے، اس صورت حال سے یقینا ہماری نئی نسلوں میں منفی اثرات پیدا ہوں گے، ضرورت اس کی ہے کہ ہم لوگ اس سطحی فکر اور گھٹیا سوچ سے اوپر اٹھ کر کام کریں اوراپنے مقام و مرتبہ کو پہچانیں اپنے وقار ومعیار مقتدا اور پیشوا ہونے کا پاس ولحاظ رکھیں۔ نیز مدارس کے قائم کرنے اور تعمیر کرنے میں اسلاف کے طرز عمل کو اسوہ بنائیں ان کو ناک کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ ہم خدامِ دین کا ہر ہر عمل خلوص و للہیت سے معمور ہونا چاہئے، ہمارا کوئی بھی جذباتی اقدام ایسا نہ ہو کہ جس پر عوام الناس کی انگلیاں اٹھیں اور ہم لوگ ان کی محفلوں کا موضوع بن جائیں اللہ ہمیں توفیق عمل سے نوازے۔

نئے نئے جامعات اور دارالعلوموں کا قیام امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ

            فخر ونمائش اور مقابلہ آرائی کیلئے قائم ہونے والے مدرسوں کے بارے میں ایک المیہ یہ ہے کہ ایسے نوعمر مکاتب کے ذمہ دار محدود و مختصر جگہ میں قائم اپنے چھوٹے سے مکتب کو جامعہ، اور دارالعلوم جیسے الفاظ سے موسوم کرکے بلاوجہ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں، ایسے لوگوں کا طور طریق اور طرز عمل نہ معلوم کتنے مسلم بھائیوں کے لئے خداع کا باعث بنتا ہے چونکہ ان کا مقصد مدرسہ بناکر دینی خدمت کرنا نہیں بلکہ انھوں نے ایک دو حجروں یا چند گز زمین کو جامعہ یا دارالعلوم کا نام دے کر ملت کو گمراہ کرنا اور شکم پروری کو مقصود بنایا ہے اس لئے وہ ایک آدمی کو برائے نام پڑھانے کیلئے اس ٹھکانہ پر چھوڑ دیتے ہیں اور متعدد افراد چندہ کی رسیدات بیگ میں ڈال کر وصولی کیلئے نکل جاتے ہیں اور صرف رمضان شریف ہی میں نہیں بلکہ پورے سال متمول حضرات کے دروازوں پر چکر لگاتے نظر آتے ہیں، فراہمیٴ چندہ کے لئے ان کی دن رات کی کوششوں اورمحنتوں کا دائرہ صرف ضلعی اور صوبائی سطح تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملک بیرون ملک تک ان کے اسفار ہوتے ہیں۔ اور وہ اس چھوٹے سے مکتب کیلئے جہاں نہ دارالاقامہ کا کوئی وجود ہے اور نہ وہاں کسی ایک بھی طالب علم کیلئے قیام و طعام کا نظم، چند مدرسین اور کچھ مقامی طلباء اور بعض جگہ تو صرف ایک ہی مدرس مقامی چند طلباء کو گھیر کر وقت گذاری کرتا ہے۔ اور کئی افراد مل کر اس کیلئے زکوٰة کی خطیر رقم جمع کرکے لاتے ہیں، جسے وہ بے خوف و خطر نہایت دلیری کے ساتھ بلا کسی تملیک وغیرہ کے اپنے اخراجات سفر اور تنخواہوں میں استعمال کرتے ہیں اس طرح کی غیر شرعی سطحی حرکتوں کے باعث نہ معلوم کتنے اصحاب خیر لوگوں کی زکوٰة اہل حق تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔

            راقم السطور کے علم میں ایسی ایک نہیں بلکہ متعدد نظیریں ہیں۔ ایک بستی میں پہلے سے ایک بڑا ادارہ معیاری تعلیم و تربیت کے ساتھ جاری ہے۔ ایک صاحب نے اسی مدرسہ سے متصل ۱۰۰ گز زمین خرید کر ایک چھوٹا سا حجرہ بناکر ایک حافظ کو وہاں چھوڑرکھا ہے اور پانچ یا چھ افراد پر مشتمل ایک عملہ پورے سال اس جگہ کے نام پر چندہ کرنے میں مصروف رہتا ہے، مزید براں ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں کہ بعض لوگ کاغذی اور جیبی مدرسے چلارہے ہیں کہ ان کے مدرسہ کا وجود جس کا وہ چندہ کرتے ہیں صرف کاغذوں اور جیبوں تک ہے خارج میں نام ونشان نہیں اور وہ بے دھڑک زکوٰة وصول کرکے بے دریغ ذاتیات میں استعمال کرتے ہیں۔ جو بلاشک انما یَاکلون فی بُطونہم نارًا کا مصداق بن رہے ہیں، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ اس طبقہ کے حضرات کے دلوں سے خوف خدا گویا بالکل رخصت ہوگیا، کیا انہیں اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضری اور حساب کے بارے میں تردد ہے؟ جس دنیا طلبی کے لئے وہ دینی لبادہ اوڑھ کر امت کو دھوکہ دے رہے ہیں کیا وہ مردار اور ذلیل دنیا ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے والی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پیشہ ور لوگوں کی وجہ سے اہل علم حضرات کی پوری صف داغدار ہورہی ہے علماء کی جماعت اور دینی خدام کا وقار مجروح ہورہا ہے۔

پیشہ ور سفیروں کے منفی اثرات

            بے اعتمادی کی اس فضا کے اثرات سے صحیح کام کرنے والے حضرات بھی متاثر ہورہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک وغیرہ کے مہینے میں واقعی اور صحیح مدارس کے نمائندے جب کسی صاحب خیر کے یہاں پہنچتے ہیں تو وہ بھی بعض اوقات شک کے دائرے میں آجاتے ہیں اور مالداروں کی طعن و تشنیع سے محفوظ رہنا ان سنجیدہ اور باغیرت سفراء کیلئے بڑا مشکل مسئلہ بن جاتا ہے نیز بعض اہل خیر لوگوں کے یہاں تقسیم چندہ میں ایسی بدنظمی اور غیرذمہ دارانہ طریقہ اختیار کیا جاتاہے کہ اصل مدارس والے محروم رہ جاتے ہیں اور غیر مستحق لوگ اپنی چرب زبانی اور چالاکی کے باعث اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں لہٰذا متمول حضرات کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زکوٰة اہل حق تک پہنچانے میں تحقیق و تفتیش سے کام لیں خواہ اس کے لئے انہیں باقاعدہ سفر کرنا پڑے یا اپنا کوئی نمائندہ بھیجیں۔ اس سلسلہ میں کسی مدرسے والے کی روایت پر قطعاًبھروسہ نہ کریں چونکہ مدارس سے وابستہ حضرات میں بعض افراد کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ ان سے اگر کسی ادارہ کے بارے میں کوئی پوچھ لے کہ فلاں مدرسہ کیسا ہے؟ کیا آپ فلاں مدرسہ کو جانتے ہیں؟ تو ہم لوگوں کا مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ ہمارے جوابات میں عموماً برائی کا پہلو غالب ہوتا ہے ایک مدرسہ والا دوسرے مدرسہ کی تحقیر و تنقیص میں اپنی عزت افزائی تصور کرتا ہے، حالانکہ اس طریق میں دونوں ہی کی حقارت و تذلیل لازم آتی ہے۔

            حضرت مرشد الامت مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی کے بقول کہ ”آج ہر مدرسہ والا اپنے کام پر خوش ہے دوسرے مدرسہ کے کام کو سراہنے اور اس کے متعلق حوصلہ افزاء کلمہ خیر کہنے کا مزاج ختم ہوتا جارہا ہے۔ کلُ حِزْبٍ بما لدیہم فرحُون کا ہر طرف مشاہدہ ہوتاہے اگر کسی جگہ دینی کام ہورہا ہے تو اس سے مسرت ہونا ایمانی تقاضا ہے۔ اگر کسی دینی کام میں آپ تعاون نہیں کرسکتے تو کم از کم برائی بھی تو نہ کریں۔“

            حضرت محی السنہ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی فرمایاکرتے تھے کہ ”دین ایک جسم کے مانند ہے، جسم کے اعضاء الگ الگ ہوتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ ان کے کام ہوتے ہیں۔ کان کی ذمہ داری سننا، آنکھوں کا کام دیکھنا، ناک کا استعمال سونگھنے کیلئے ہوتا ہے، ایک عضو دوسرے عضو کا کام انجام نہیں دے سکتا آنکھ کا کام اگر ناک سے لینا چاہیں تو نہیں لے سکتے ہر عضو کی مستقل اپنی ضرورت ہے اور وہ جسم کی خدمت انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دین کے مختلف شعبے اور میدان ہیں۔ کوئی تبلیغی لائن سے دین کی خدمت کررہا ہے، کوئی دینی مدرسہ کی شکل میں دین کی خدمت میں مصروف ہے اورکوئی خانقاہی انداز سے مصروف عمل ہے مقصد سب کا ایک ہے وہ دین کی خدمت کرنا۔

اہل مدارس کا بنیادی نکتہٴ محنت

            حصول مالیات کے سلسلہ میں ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ رہا ہے کہ انھوں نے مدرسہ کے مالی استحکام و ترقی اور اس سلسلہ کی محنت و سعی کو ہمیشہ دوسرے درجہ پر رکھا ہے، اپنی پوری توجہ کا مرکز طلبہ کی تعلیم و تربیت کو بنایا اور ہر موقعہ پر تعلیمی محنت کو اول درجہ دیا۔ لیکن دور حاضر کے ارباب مدارس کی صورت حال اس طریق سے مختلف نظر آتی ہے مدارس کے منتظم حضرات کی نظر تکثیر چندہ کی طرف ہوتی ہے، معیار تعلیم اور طلبہ کی اخلاقی تربیت کی جانب سے بالکل غفلت بری جاتی ہے اس کا لازمی اثر طلبہ کی صلاحیتوں کے ضعف و انحطاط اوراخلاقی بگاڑ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ اس جذبہ کے ساتھ بچوں پر تعلیمی و تربیتی محنت کریں کہ ہم ان کے روشن مستقبل کے معمار ہیں ان کے سرپرستوں نے ہمارے اوپر اعتماد کرتے ہوئے اپنے جگرپاروں کو ہمارے حوالہ کیاہے۔ ان طلبہ کی باضابطہ تربیت کرکے ان کی آئندہ زندگی کو ہم قیمتی بناسکتے ہیں اور ہماری بے فکری و بے توجہی ان بچوں کی زندگی کو تاریک اور ضائع بھی کرسکتی ہے۔ ہم لوگ ہر بچہ پر یہ خیال کرکے محنت کریں کہ ہم ایک بچہ پر نہیں بلکہ پورے ایک مدرسہ پر محنت کررہے ہیں چونکہ یہی بچے مستقبل کے مہتمم، منتظم اور استاذ ہیں، جیسی تعلیم و تربیت ہم ان کی کریں گے ویسی ہی یہ اپنے ماتحتوں کی کریں گے، ہمارے ذہن ودماغ میں یہ فاسد خیالات نہ آئیں کہ زیادہ روک ٹوک کرنے اور مضبوط اصول وضوابط اختیار کرنے سے بچے، بھاگ جائیں گے یا داخلے کم ہوں گے تو اس کا اثر چندہ پر ہوگا ہرگز ایسا نہیں طلبہ دوسو نہ رہ کر سو رہ جائیں گے لیکن یہ طلبہ محنتی جفاکش اور نظام الاوقات کے پابند بنیں گے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہماری نظر معیار پر ہو نہ کہ تعداد پر۔

دینی خدام اپنی اصلاح کا فکر کریں

            ارباب مدارس کی ایک بڑی کمزوری باہمی اختلاف و انتشار کا ہونا ہے جسکے باعث بعض اوقات مدرسوں میں بڑے فتنے رونما ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مدرسہ کا وقار مجروح ہونے کے ساتھ مدرسہ کے طلبہ اور عوام پر نہایت غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے واقعات کی وجہ سے ادارہ اپنے تعلیمی سفر کی منزل سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں محقق العصر حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی چند تجاویز ذیل میں مذکور ہیں جو مدارس واہل مدارس کے لئے اکسیر ہیں۔

(۱)       تمام مدارس میں تصوف و احسان کو باضابطہ نصاب کا جز بنایا جائے۔

(۲)       اساتذہ و طلباء پر لازم کیاجائے کہ وہ ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ جمع ہوکر بزرگانِ دین اور بالخصوص اکابر علماء دیوبند کے حالات و ملفوظات کا اجتماعی طورپر مطالعہ کریں اس میں حضرت تھانوی کی ارواح ثلاثہ، تذکرة الرشید، حیات قاسمی، تذکرة الخلیل، حیات شیخ الہند، اشرف السوانح، اور حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہ کی ”آپ بیتی“ کا اجتماعی مطالعہ خاص طورپر مفید ہوگا۔

(۳)      ہرمدرسہ کے مہتممین کے لئے کسی شیخ طریقت سے باقاعدہ اصلاح و تربیت کا تعلق قائم کرنا ضروری سمجھاجائے اور اساتذہ کے تقرر اور ترقی وغیرہ میں ان کے اسی پہلو کو بطور خاص نظر میں رکھا جائے۔

(۴)      جس مدرسہ کے قریب کوئی صاحب ارشاد بزرگ موجود ہوں، وہاں کے اساتذہ اور طلبا ان کی صحبت و خدمت کو غنیمت کبریٰ سمجھ کو اختیار کریں اورکبھی کبھی مدرسہ میں ان کے اجتماعی وعظ ونصیحت کا اہتمام کیا جائے۔

            امید ہے کہ انشاء اللہ اس قسم کے اقدامات سے مدارس کی فضاء بہتر ہوگی اور ہم اپنے جس مرکز سے رفتہ رفتہ ہٹتے جارہے ہیں اس کی طرف لوٹنے میں مدد ملے گی۔ (درس نظامی کی کتابیں کیسے پڑھائیں،ص:۴۶)

            حضرت مولانا مدظلہم کی تجاویز کی روشنی میں یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ مدارس کی اصل روح کا احیاء اور ان میں عمل و عرفانی فضاء قائم ہونے کیلئے ضروری ہے کہ دینی خدام اپنی اصلاح کی فکر کریں اور اپنے محاسبہ کا معمول بنائیں۔ اس کیلئے باضابطہ اپناکوئی مشیر اورمرشد مقرر کریں اس چیز سے جہاں مدرسہ کے نظام تعلیم و تربیت میں بہتری اور نکھار پیداہوگا ساتھ ہی روحانی سفر بھی جاری رہے گا اور رفتہ رفتہ معرفت خداوندی حاصل ہوگی جو نعمت کبریٰ اورمقصود مومن ہے۔

اللّٰہُمَّ وَفّقَنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْفِعْلِ وَالنِّیَّةِ

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 91 ‏، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء